| تُجھ سے گر ہجر ہو یادوں سے گزارا میں کروں |
| اور تجھے روز محبت سے نکھارا میں کروں |
| تیرے ہونٹوں پہ اُداسی کا اگر پہرا ہو |
| اپنے ہونٹوں سے ترے ہونٹ سنوارا میں کروں |
| توڑتے خود ہو محبت کے سبھی پیمانے |
| اور کہتے ہو محبت سے کنارہ میں کروں |
| بے وفائی کا ترے سامنے ہو ذکر اگر |
| تیری آنکھوں میں ندامت کا نظارہ میں کروں |
| سامنے تُو ہو ترے ہونٹ تری آنکھیں ہوں |
| ٹوٹ کر چاہوں تجھے پیار دوبارہ میں کروں |
| کاش مل جائے نشاں تیرے چلے جانے کا |
| ریت سے آنکھوں کو بھی چاند ستارہ میں کروں |
| کیوں ہے دیوانہ ہوا لوگ کہیں خامؔ سے جب |
| جھوم کر تیرا فقط نام پکارا میں کروں |
معلومات