سُن اے آتش عشق اب تُو بھی تو پانی سے نکل |
چَل بَدَل اپنی خُو، مٹی کی نشانی سے نکل |
کاغذی ہے تیری میری داستاں کا دائرہ |
بے نشاں پنچھی تُو اب میری کہانی سے نکل |
وُہ ہی مٹی، آگ، پانی اور ہوا کا سلسلہ |
ان عناصر کی تُو جھوٹی لن ترانی سے نکل |
عشق تو ہے روگ جی کا، عمر بھر دے گا ساتھ |
بے سر و سامانیوں کی سر گرانی سے نکل |
گھیر لُوں گا میں تجھے رُوحِ مُعطر کی طرح |
پر تو ایسا کر کہ اپنے دارِ فانی سے نکل |
اک مُسافر ہوں اجل، نزع و لحد تک کا میں بس |
گر نکلنا ہے تو اس نقلِ مکانی سے نکل |
معلومات