سُن اے آتش عشق اب تُو بھی تو پانی سے نکل
چَل بَدَل اپنی خُو، مٹی کی نشانی سے نکل
کاغذی ہے تیری میری داستاں کا دائرہ
بے نشاں پنچھی تُو اب میری کہانی سے نکل
وُہ ہی مٹی، آگ، پانی اور ہوا کا سلسلہ
ان عناصر کی تُو جھوٹی لن ترانی سے نکل
عشق تو ہے روگ جی کا، عمر بھر دے گا ساتھ
بے سر و سامانیوں کی سر گرانی سے نکل
گھیر لُوں گا میں تجھے رُوحِ مُعطر کی طرح
پر تو ایسا کر کہ اپنے دارِ فانی سے نکل
اک مُسافر ہوں اجل، نزع و لحد تک کا میں بس
گر نکلنا ہے تو اس نقلِ مکانی سے نکل

53