اس سے جو وعدہ کیا تھا آج پورا کر دیا
خود کو مٹی اور اس کو آج سونا کر دیا
میری نسبت ہو کسی سے یہ اسے بھاتا نہ تھا
اس کی خاطر آج میں نے خود کو تنہا کر دیا
اپنی نیلامی ہوئی ایسی بچا تھا اک ضمیر
کوڑیوں کے دام اس کا آج سودا کر دیا
ہاتھ مجھ کو جھاڑنے تھے خواب گروی رکھ دیئے
روح پر جو بوجھ تھا اس کو بھی ہلکا کر دیا
توڑ کر مجھ کو وہ تھوڑا مسکرایا تھا کبھی
ٹوٹنے کو پھر دوبارہ خود کو یکجا کر دیا

74