تو زینتِ عالم ہے بلندی کا ہے اختر
پھر کیوں ہے پڑا پستیٔ ارضی کے تو اندر
کس دور میں جیتے ہو خبر کچھ بھی ہے تجھ کو
ہوتے ہیں کہاں تیری نگاہوں پہ اجاگر
ڈر جاتا ہے تو ہلکی سی دریا کی لہر سے
ہوتا تھا کبھی تو بھی تو طوفان کا پیکر
آنکھوں میں نہیں خوابِ جہاں گیری و بانی
خواہش ہے مگر مل کے رہے تختِ سکندر
مانا کہ تری قوم کی تاریخ رہی ہے
پر اب ہے کوئی صف میں ترے طغرلؔ و سنجرؔ
اقوام کی تقدیر کی راہوں سے ہے بھٹکا
ہر کوئی بنا بیٹھا ہے اب قوم کا رہبر
خوابیدہ تری قوم کا بیدار محافظ
کہتے ہو مگر مجھ کو ہی خوابیدۂ پرور
نا واقفِ تاریخِ مسلماں سے مسلماں
کیا بدر و احد، خندق و یرموک ہے خیبر
بیزار مذاھب یوں جوانان ہیں گویا
اسلام ہے بت خانہ براھیؔم ہے آزر
افسوس تری دیدہ دلیری پہ جوانو
باطل سے ہراساں ہو تو مر جا کہیں جاکر
ملت کے لئے تو بھی تڑپتا ہے ذرا سا
کیا تو بھی مچلتا ہے ترا دل بھی ہے مضطر
وہ ایک بہادر تھا مری قوم کا گوہر
لا تو بھی کبھی ڈھونڈ کے اس کا کوئی ہمسر
وہ تیری طرح کاذب و قوّال نہیں تھا
فعال و جگر چاک تھا میدان کا خوگر
دل اشک کے دریا میں کہیں ڈوب سا جاتا
جب چشمِ دروں دیکھ کے روتی ہے یہ منظر
اس مردِ مجاہد کا کیا خون بھی تو نے
پھر کیوں میں کہوں تو ہی بتا اُن کو ستمگر
اس قوم کی یہ سوۓ نصیبا ہے ازل سے
ہر ٹیپوؔ کے پیچھے ہے کوئی صادق و جعفر
سمجھاؤں میں کس کس کو محبت کی زباں سے
درکار ہے اب خالدؔ و فاروقؔ کا تیور
اغیار کی یورش سے پریشاں ہیں مسلماں
لیکن کہ بنائیں گے نہیں اپنا یہ لیڈر
افسوس کہ اب بھی تو جواں عزم نہیں ہے
کیسے تری تقدیر کا تارا ہو منوّر
اے اہلِ نظر دیکھ ذرا ملک کی حالت
سوچا ہے کبھی کیوں ترے حالات ہیں بدتر
گر میں کہ سیاست کی ذرا بات کروں تو
ہوتے ہیں بھری بزم کے چہرے متغیر
مضبوط سیاست ہو قوی تر ہو شریعت
ہے بزمِ مسلماں کے لئے راۓ یہ بہتر
بیزار ہوۓ شورشِ میداں سے جو مومن
ہنگامۂ عالم سے پریشاں ہوا محشر
باطل ہے مذاھب پہ دل و جان سے شیدا
تو بندۂ حق پیچھے رہے کیسے ہو کیوں کر
طارقؔ ہو قتیبہؔ ہو ملک شاہؔ ہو موسیؔ
ایوبیؔ صفت رہروِ میداں ہو قلندر
نوخیز تری ہستی ہے بے باک ہو شاہیؔ
محمودؔ و محمدؔ ہو یا غوریؔ ہو یا بابرؔ

1
95
. " تاریخ"
. " الاسلام یعلوا ولا یعلی "
لکن المسلمون مقہور و مغلوب و مقتول فی کل زمان اذا لم یکن یطلعوا علی احوال الحاضر

باطل ہے مذاھب پہ دل و جان سے شیدا
تو بندۂ حق پیچھے رہے کیسے ہو کیوں کر

ہماری قومی تاریخ ہمیں کس چیز کی تعلیم دیتا ہے، ہمارا ہندوستان آج کس انقلاب آفریں معلم کا منتظر ہے اور آج کے مسلمانوں کو کس حریت پسند اور غلامیت شکن کی شاگردیت اختیار کرنی چاہیے

آج ان کی حالت یہ ہے کہ مستقبل میں آنے والے حوادث و خطرات سے اگر انہیں آگاہ کیا جاتا ہے تو یہ کہنے والے کو ہی دبوچ لیتے ہیں ، اگر حسنِ اتفاق سے ان کی قوم میں ایک آدھ ٹیپو (سلطان ٹیپو) پیدا ہوجاتا ہے تو ہر شخص ا س مرد مجاہد کو مٹانے کے لیے میر صادق اور میر جعفر سے بھی زیادہ شرمناک حد تک درندگی کے اعلی ترین مقام پر فائز ہوجاتا ہے ، اگر انہیں کہا جاتا ہے کہ اگر آج تم ہوشیار نہیں ہوۓ تو کل تمہاری گردنیں مار دی جائیں گی کوئی لاس اٹھانے والا نصیب نہیں ہوگا تو ان کے چہرے ایسے متغیر ہوتے ہیں گویا ان کے سروں پر آسمان سے بجلی گر پڑی ہو ، بھلا ایسی نابینا اور بے بصیرت قوم کا ہماری تابناک تاریخ سے کیا واسطہ

افسوس تو اس پر ہے کہ جنہیں قوم کا رہبر بنایا گیا ہے انہیں خود اپنی رہبری کا پتہ نہیں وہ قوم کو منزل مقصود تک کیسے پہنچائیں گے

کیا علماء انبیاء کے وارث اور قوم کے رہبر نہیں ہیں ، آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ انبیاء کرام اپنی قوم کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ان کی بقاء کی بھی فکر کرتے رہے ہیں مگر ہم وہ علماء ہیں جنہوں نے اسلام کو صرف مدارس و خانقاہ تک محدود کردیا ہے جبکہ شیخ الہنؒد مولانا محمود الحسن دیوبندی کی پوری زندگی ہمارے سامنے کھلی کتاب سے بڑھ کر عیاں ہے ، سچ بات تو یہ ہے کہ امام انقلاب عبیداللہ سندھی اور ان جیسے ملک و ملت کے پاسبانوں کے سرفروشانہ جذبات ہمارے لئے خس و خاشاک کی حیثیت رکھتے ہیں

دولتِ تقوی سے محروم آج انہیں یہ لگتا ہے کہ یہ اپنی دعاؤں سے دنیا فتح کرلیں حالانکہ ان کی سیاسی پوزیشن ایسی ہے کہ ایک مکھی بھی نہیں مار سکتے جبکہ ان کی تاریخ فاتحین عالم سے بھری پڑی ہے

مجھ سے کہا جاتا ہے کہ انہیں پیار سے سمجھاؤ بھلا بتلاؤ فاروق اعظم و حیدر کرار اور خالد و ضرار کی روایات کو فراموش کرنے والی قوم کو پیار کی زباں کیوںکر سمجھایا جائے بلکہ یہ تو اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی پیشانیوں میں روشن دان کھول دیے جاۓ

آج باطل قومیں اسلام اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے مگر بندۂ حق اس امید میں بیٹھا ہے کہ اللہ خود ان کی مدد کو پہونچے گا خدا کی قسم ایسا کچھ نہیں ہونے والا ،اللہ کو آپ کی کوئی ضرورت نہیں اگر ضرورت ہے تو آپ کو ہے،
اللہ نے کھلے لفظوں میں کہہ دیا ہے
" ان تتولوا یستبدل قوماً غیرکم"

اگر تم نہیں تو کوئی اور میرے اسلام کی حفاظت کرے گا اس کے تحفظ کے لئے دینی ،دنیاوی ، ایمانی ، اور مادی ہتھیاروں سے لیس ہوکر آئیں گے اور میرے دین کو سربلند کریں گے



" تاریخ"

تو زینتِ عالم ہے بلندی کا ہے اختر
پھر کیوں ہے پڑا پستیٔ ارضی کے تو اندر

کس دور میں جیتے ہو خبر کچھ بھی ہے تجھ کو
ہوتے ہیں کہاں تیری نگاہوں پہ اجاگر

ڈر جاتا ہے تو ہلکی سی دریا کی لہر سے
ہوتا تھا کبھی تو بھی تو طوفان کا پیکر

آنکھوں میں نہیں خوابِ جہاں گیری و بانی
خواہش ہے مگر مل کے رہے تختِ سکندر

مانا کہ تری قوم کی تاریخ رہی ہے
پر اب ہے کوئی صف میں ترے طغرلؔ و سنجرؔ

اقوام کی تقدیر کی راہوں سے ہے بھٹکا
ہر کوئی بنا بیٹھا ہے اب قوم کا رہبر

خوابیدہ تری قوم کا بیدار محافظ
کہتے ہو مگر مجھ کو ہی خوابیدۂ پرور

نا واقفِ تاریخِ مسلماں سے مسلماں
کیا بدر و احد، خندق و یرموک ہے خیبر

بیزار مذاھب یوں جوانان ہیں گویا
اسلام ہے بت خانہ براھیؔم ہے آزر

افسوس تری دیدہ دلیری پہ جوانو
باطل سے ہراساں ہو تو مر جا کہیں جاکر

ملت کے لئے تو بھی تڑپتا ہے ذرا سا
کیا تو بھی مچلتا ہے ترا دل بھی ہے مضطر

وہ ایک بہادر تھا مری قوم کا گوہر
لا تو بھی کبھی ڈھونڈ کے اس کا کوئی ہمسر

وہ تیری طرح کاذب و قوّال نہیں تھا
فعال و جگر چاک تھا میدان کا خوگر

دل اشک کے دریا میں کہیں ڈوب سا جاتا
جب چشمِ دروں دیکھ کے روتی ہے یہ منظر

اس مردِ مجاہد کا کیا خون بھی تو نے
پھر کیوں میں کہوں تو ہی بتا اُن کو ستمگر

اس قوم کی یہ سوۓ نصیبا ہے ازل سے
ہر ٹیپوؔ کے پیچھے ہے کوئی صادق و جعفر

سمجھاؤں میں کس کس کو محبت کی زباں سے
درکار ہے اب خالدؔ و فاروقؔ کا تیور

اغیار کی یورش سے پریشاں ہیں مسلماں
لیکن کہ بنائیں گے نہیں اپنا یہ لیڈر

افسوس کہ اب بھی تو جواں عزم نہیں ہے
کیسے تری تقدیر کا تارا ہو منوّر

اے اہلِ نظر دیکھ ذرا ملک کی حالت
سوچا ہے کبھی کیوں ترے حالات ہیں بدتر

گر میں کہ سیاست کی ذرا بات کروں تو
ہوتے ہیں بھری بزم کے چہرے متغیر

مضبوط سیاست ہو قوی تر ہو شریعت
ہے بزمِ مسلماں کے لئے راۓ یہ بہتر

بیزار ہوۓ شورشِ میداں سے جو مومن
ہنگامۂ عالم سے پریشاں ہوا محشر

باطل ہے مذاھب پہ دل و جان سے شیدا
تو بندۂ حق پیچھے رہے کیسے ہو کیوں کر

طارقؔ ہو قتیبہؔ ہو ملک شاہؔ ہو موسیؔ
ایوبیؔ صفت رہروِ میداں ہو قلندر

نوخیز تری ہستی ہے بے باک ہو شاہیؔ
محمودؔ و محمدؔ ہو یا غوریؔ ہو یا بابرؔ


شاہؔی ابو اُمامـه شــؔاہ ارریاوی

0