پڑھ کے آیا ہے سبق کون وفاداری کا
یاں تو اپنوں سے ہوا خوف ہے غدّاری کا
لوگ نفرت کا سرِ عام سبق دیتے ہیں
کون سکھلائے سلوک ان کو رواداری کا
جھوٹ سُن سُن کے کسی شخص کا جاگا ہے ضمیر
کوئی بے ساختہ اظہار ہے بیزاری کا
ایک انسان ہی درپے ہوا انسانوں کے
کیسا منصوبہ ہے دنیا کی تبہ کاری کا
چاہنے والوں میں لکھا ہے فرشتوں نے ہمیں
یہ تو انعام ہے مخلوق کی غمخواری کا
حالِ دل کھول کے بتلاؤں گا تفصیل کے ساتھ
کوئی آیا ہے مسیحا مری بیماری کا
چوٹ جب دل پہ لگے زور سے آتی ہے صدا
عشق تو کام نہیں ہوتا ریا کاری کا
دید ممکن جو نہیں بات کبھی ہو اس سے
کوئی سامان تو ہو گا مری دلداری کا
پارسائی بھی نصیبوں سے عطا ہوتی ہے
سلسلہ ختم نہیں ہوتا گنہ گاری کا
طارق آثار قیامت کے نظر آتے ہیں
کس کو آئے گا خیال آپ کی بیداری کا

0
15