دور جانے کی ضرورت ہی نہیں |
روٹھنے کی ہمیں عادت ہی نہیں |
بھول جائیں گے تمہیں ہم اک دن |
گر تمہیں ہم سے محبّت ہی نہیں |
وقتِ ہجراں تھا کہا اس نے ہمیں |
میرے دل کو تری حسرت ہی نہیں |
لوگ پل میں ہی بدل جاتے ہیں |
یار ہم سی یہاں سیرت ہی نہیں |
دل کی دہلیز پہ دستک دیکر |
کہہ دیا اس نے محبت ہی نہیں |
کیا کبھی چین و سکوں پائیں گے؟ |
غمِ الفت میں حلاوت ہی نہیں |
اے مرے دل تو جیا جا تنہا |
یار کی ہم کو ضرورت ہی نہیں |
غمِ فرقت نے ہمیں توڑا ہے |
اب کسی سے ہمیں الفت ہی نہیں |
واسطے اس کے لٹاتے ہیں جان |
اور ہم سے اسے نسبت ہی نہیں |
کیا بیاں دل کی اذیت کریں ہم |
جبکہ اس سے ہمیں نفرت ہی نہیں |
بات دل کی تو سنا کر رہبر |
عشق کی راہ میں راحت ہی نہیں |
معلومات