شعر ، اُس کو نہ پُر اثر کہنا
جو نہ سکھلائے شر کو شر کہنا
تم نے کیا کیا نقاب اوڑھے ہیں
سچ کو یوں جھوٹ ، سر بسر کہنا
پتھروں کے صنم بنا کر پھر
بت کدوں کو خدا کا گھر کہنا
ہاتھ میں ہاتھ دینا شیطاں کے
اور پھر خود کو معتبر کہنا
تم نے یہ سب کہاں سے سیکھا ہے
تم کو آساں نہیں بشر کہنا
کانٹے رستے میں ڈالتا ہے جو
اس کو پھلدار پھر شجر کہنا
طارقؔ اتنا سمجھ نہ پاؤ گے
سیکھ لو شام کو ، سحر کہنا

0
14