نہ ہو عشق کی آگ تو بیکار ہیں سب
عہد محکومی کے یہ خمار ہیں سب
ہو فکر روشن شمع فروزاں کرنے کی
سلگتے دیے کے سر کی پکار ہیں سب
نمایاں ہوں بدلاؤ کے آَثار رویہ میں
ورنہ بے راہ روی سے بیزار ہیں سب
ہوتا ہے تغیر پزیر قوم کا نصیب تب
بیک وقت کہیں ہم بیدار ہیں سب
بن گئی بے حسی مشترک فعل اب
گویا ایک انار اور بیمار ہیں سب
بڑی کٹھن ہے رسائی پائہ تکمیل تک
شوق جستجو میں بیقرار ہیں سب
صرف لفاضی سے کام نہیں بنتا ناصر
گندے انڈے کہلانے کے حقدار ہیں سب

0
85