مسکرا دیتا ہے ، سُن کر وہ بہانے میرے
ڈھانپ کر رکھے ہیں سب عیب خدا نے میرے
ٹال دیتا ہے مری بات ، سمجھ کر ناداں
ورنہ ہاتھوں میں وہ دے دیتا خزانے ، میرے
روز و شب اس کے ہی در پر جو پڑا رہتا ہوں
ڈھونڈ لیتے ہیں مرے دوست ٹھکانے میرے
سامنے سب کے وہ رسوا نہیں ہونے دے گا
کچھ نہ کچھ اس سے مراسم ہیں پرانے میرے
شمع جلتی رہی پروانے فدا ہوتے گئے
جان پیاری تھی جنہیں کب تھے ، سیانے میرے
وہ جو مہمان ہیں رونق کا سبب ہیں ورنہ
گھر کے خالی نظر آتے سبھی ، خانے میرے
میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ محبَّت کر لو
دوست دشمن سبھی گاتے ہیں ترانے میرے
سوچتا ہوں کہ کروں یا نہ کروں کام کوئی
بیٹھے رہتے ہیں فرشتے جو سرہانے میرے
طارقؔ آزادئ اظہار کا اک دور ہے یہ
لوگ پڑھ پڑھ کے سناتے ہیں فسانے میرے

0
14