دکھوں کی راجدھانی پر غموں کی حکمرانی ہے |
بڑی تکلیف میں کیوں آج کل یہ زندگانی ہے |
سماعت کھوگئی سب کی بصیرت پر اندھیرا ہے |
جہاں کو آج کل ہر دم نئی آفت نے گھیرا ہے |
بہت کم ہیں جو دنیا کی بھلائی کو تڑپتے ہیں |
زیادہ تر یہاں اپنے لئے سب کام کرتے ہیں |
خدا کومانتے ہیں پر خدا کی مان لیتے جو |
جہاں میں امن سے رہنے کی گر ہم ٹھان لیتے جو |
کہ انساں کی قدر بھی اک ذرا پہچان لیتے جو |
کسی حالت میں دوجے کی اگر نہ جان لیتے جو |
تو پھر انسانیت دنیا میں کیسے توڑ دیتی دم |
محبت اور اخوت سے نہ رہنا چھوڑ دیتے ہم |
دیانت اور شرافت اور حیا کچھ باہمی الفت |
برت لیتے تو ہم پاتے خدا سے خیر اور برکت |
نہ اس دنیا میں اتنے غم اٹھاتی نوعِ انسانی |
سزا ملتی نہ ہوتی اس قدر سب کو پریشانی |
اطاعت سے نکل کر خیر کی اُمید لا یعنی |
ابھی مہلت ہے سوچیں مت کریں ہم ایسی نادانی |
معلومات