میں تجھ میں ہوں تو مجھ میں ہے ہم میں کچھ بھی نہیں |
کسی غم میں دونوں ہیں پر غم میں کچھ بھی نہیں |
ہے یہ سب فسانہ عدم کا فسانہ کوئی |
کہ آدم ہوا میں ہے آدم میں کچھ بھی نہیں |
عجب حال ہے ذہن کی خستہ دیوار کا |
کہ یادوں کا البم ہے البم میں کچھ بھی نہیں |
یہ دشتِ ہویدا ہے یوں خم بہ خم تہ بہ بۃ |
خودی دم پہ دم ہے مگر دم میں کچھ بھی نہیں |
کہاں ڈھونڈھ کے لاؤں وہ چہرے جو کھو گئے |
نظر میں تو جہلم ہے جہلم میں کچھ بھی نہیں |
یہ دل بے سبب بے خبر یونہی مرتا رہا |
حقیقت میں افسانئہ غم میں کچھ بھی نہیں |
معلومات