| تھی حور مقابل دل کے مہماں کے |
| ثانی انکا لائے کوئی کہاں سے |
| شوخی کرتی ہوائیں ہیں گفتگو میں |
| زلفوں سے پردہ ہو تو دیکھیں کہاں سے |
| اظہارِ اُلفت ہے اشاروں میں مگر |
| اقرار کرے وہ بھی مجھ سے زُباں سے |
| برسات نہیں اچھی لگتی ان کو |
| جذبے لگتے ہیں انکو رائیگاں سے |
| سوچو خِلقت کو خوش اندام کی جب |
| لایا ہو گا خالق مٹی کہاں سے |
| وہ دِلکشی لفظوں میں ہو سکتی بیاں گر |
| تصویر کشی کرتے کبھی ہم گماں سے |
| اے مہِؔر کوئی تو ہو بدل اسکا جو ہو |
| امید لگا بیٹھے ہو اک بیباں سے |
| ----------٭٭٭--------- |
معلومات