غزل
ایک مدت سے تو جدا ہوا ہے
پھر بھی اندر کہیں چھپا ہوا ہے
مر گیا کوہکن پہ شیریں رہی
اب تو یہ راز بھی کھلا ہوا ہے
ہاتھ پیلے جو ہو گئے ہوئے ہیں
رنگ پیلا سا ہو گیا ہوا ہے
ہوں زمیں زاد پر فلک یہ ترا
میرے کشکول میں پڑا ہوا ہے
اتنا دلکش تھا ، لُٹ چکا ہے مگر
قافلہ چور سے ملا ہوا ہے
وہ ترا چاند خاک چھانتا ہے
جو منور تھا بجھ گیا ہوا ہے
منور حسین

43