| غزل |
| ایک مدت سے تو جدا ہوا ہے |
| پھر بھی اندر کہیں چھپا ہوا ہے |
| مر گیا کوہکن پہ شیریں رہی |
| اب تو یہ راز بھی کھلا ہوا ہے |
| ہاتھ پیلے جو ہو گئے ہوئے ہیں |
| رنگ پیلا سا ہو گیا ہوا ہے |
| ہوں زمیں زاد پر فلک یہ ترا |
| میرے کشکول میں پڑا ہوا ہے |
| اتنا دلکش تھا ، لُٹ چکا ہے مگر |
| قافلہ چور سے ملا ہوا ہے |
| وہ ترا چاند خاک چھانتا ہے |
| جو منور تھا بجھ گیا ہوا ہے |
| منور حسین |
معلومات