عادت ہو چکی اب دل کی
کیوں چھاوءں کی دعا دیتے ہو
حبس میں جینا سیکھ لیا ہے
کیوں گھٹا کی دعا دیتے ہو
کیوں رکھتے نہیں اب اپنا تم
دل کی میرے جاں لیتے ہو
نیکیوں کی سزا کاٹ چکے ہم
کیوں گنہ کی جزا دیتے ہو
اب تو تھک چکی میں سانسوں سے
کیوں آہوں کی ہوا دیتے ہو
بڑھنے کا کہتے ہو آگے پھر
کیوں گئے پہروں سے ذاں دیتے ہو
باپ کی راہ میں رب راضی جب
کیوں ماں جیسی دعا دیتے ہو

0
22