شاعر کے کسی نازک نظموں میں اتر آتی
ابیات غزل مصرع دیوان میں جڑ آتی
الفاظ کے جھرمٹ میں اک لفظ محبت ہے
اردو جو اسے آتی شاید کہ وہ کر آتی
ہاں تم سے محبت ہے کہتی وہ مجھے آکر
اک حرفِ تمنا ہے اے کاش یہ بر آتی
محبوب کے آخر میں اک حرف اگر آتا
آتا نہ زبر با پر کے اس پہ بھی جر آتی
اس بیتے دسمبر کو اک سرد میں ڈوبی شام
وہ نیم تراشیدہ بھیگی ہوئی تر آتی
بیٹھا تھا کتب کھانے میں اک چاۓ کتابوں میں
یہ دل میں خیال آیا اے کاش وہ گھر آتی
ہر لفظ قیامت تھا اس پیار کی دیوی کا
شاعر تو وہ بن جاتی اردو اسے گر آتی
اردو کی غزل جیسی دلکش وہ حسیں لڑکی
سپنوں میں کبھی اے کاش دوبارہ نظر آتی
ثانیؔ یہ سمجھ جاتا کتنی ہے اسے چاہت
ہونٹوں پہ اگر اسکے کچھ زیر و زبر آتی
غالب ثانی ؔ ابو اُمامـه شــؔاہ ارریاوی
جر اور زبر - رعایتِ وزن ِِشعریکی وجہ سے خلافِ استعمال ہے

1
123
شکریہ