مندمل ہو گئے سب زخم، مقدر جاگا
جب بھی انسان کا سویا ہوا اندر جاگا
رات کے پچھلے پہر دور کسی بستی میں
کس کا اس زور سے دروازہ بجا گھر جاگا
سب شبستانِ ستم بہہ گئے تنکا بن کر
جب بھی مظلوم کی آنکھوں کا سمندر جاگا
شہر میں امن ہے انصاف ہے خوشحالی ہے
کن گنہ گار نگاہوں میں یہ منظر جاگا
موت کے وقت سے دوبارہ کھڑے ہونے تک
ہر اک انساں یہ کہے گا ابھی سوکر جاگا
جب بھی محفل میں مری سمت نظر کی اس نے
وسوسے کتنے مرے دل میں اٹھے ڈر جاگا
در پہ در خود پہ مضامین کے کھلتے دیکھے
جب بھی سویا ہوا اندر کا سخنور جاگا

0
31