خدا کے فضل و کرم سے بہار آئی ہے
چمن کو رحمتِ باراں نکھار آئی ہے
ملی ہے منزلِ مقصود چلنے والوں کو
خرابی رہ میں اگرچہ ہزار آئی ہے
ملی ہے صبر کی تعلیم ہم کو قرآں سے
ہدایت اس کی ہمیں ، بار بار آئی ہے
خدا کے نور سے روشن ہوئے ہیں دل اپنے
نصیب میں تھی عدو کے ، جو نار آئی ہے
سہارا ٹوٹے دلوں کو دیا خلافت نے
اداس چہروں پہ لے کر وقار آئی ہے
اٹھی تھی قلبِ مسیحا سے جو دُعا دیکھو
نصیب عرش پہ جا کر سنوار آئی ہے
نگاہ ڈال کے دیکھا ہے قُرب میں اپنے
یہ دل میں شکر کے جذبے اُبھار آئی ہے
صدا کے ساتھ ہی تصویر آئی گھر گھر میں
ہوا کے گھوڑے پہ ہو کر سوار آئی ہے
خبر ملی ہے یہ طارقؔ کہ ہو گی دید نصیب
خوشی بھی ساری حدیں کر کے پار آئی ہے

0
9