ہیں حقائق کچھ بیاں ہوتے ہیں اب اخبار کچھ
لگ رہا ہے بک چکے ہیں جبہ و دستار کچھ
آ گئے جو حلقۂِ احباب میں اغیار کچھ
چھوڑ دیتے ہیںشگوفہ اک نیا ہر بار کچھ
ہم کہیں جائیں بیاں کرتے ہیں حقِّ اہلِبیت
ہم نہیں وہ جو کہیں اس پار کچھ اس پار کچھ
چھوڑنے کا دامنِ عصمت نتیجہ دیکھئے
مسئلہ ہے ایک، حل، اُس بار، کچھ اس بار کچھ
شکر بھیجیں حیدرِ سفدر کا جبریلِ امیں
پر چلے جاتے جو چلتی اور ذرا تلوار کچھ
* جھاڑ کے دامن اُٹھے سرور یہی کہتے ہوئے
* دین نانا کے تجھے کیا اور ہے درکار کچھ
تھا عظیمِ اعظمی کا حکم کہئے آپ بھی
مصرعہِ بزمِ سخنور کے لئے اشعار کچھ
لے کے سجادِ حزیں کا نام ہم نے اے ’ظہیر‘
لکھ دئے کاغذ پر تھے جو ذہن میں افکار کچھ

0
3