خزاں کے موسم میں میں نکھر کے بہار میں میں جھڑا ہوا ہوں |
میں خود سے لڑتا رہا ہوں اب تک ابھی خدا سے لڑا ہوا ہوں |
مجھے یہ لگتا تھا میں سکندر ہوں آدھی دنیا کو مات دوں گا |
جہاں چلا تھا وہیں پہ پہنچا ہوں سر جھکا کے کھڑا ہوا ہوں |
مرے قبیلے کے سب پرندے ہمیشہ رہتے تھے ہجرتوں میں |
کسی سفر میں بچھڑ کے ان سے زمین پر میں پڑا ہوا ہوں |
مجھے یہ شک ہے کہ زندگی کا جو راز تھا میں نے پا لیا ہے |
کوئی بھی سنتا نہیں یہاں پر اسی بحث پر اڑا ہوا ہوں |
میں سب سے کہتا تھا میں نڈر ہوں مجھے کسی کا بھی ڈر نہیں ہے |
اجل کی بس اک جھلک سے میں تو نجانے کب سے ڈرا ہوا ہوں |
میں صبح بھولا تھا شام لوٹا کوئی دریچہ کواڑ کھولو |
اسی گلی میں اسی محلے یہیں تو شاہدؔ بڑا ہوا ہوں |
ق |
اسے بتایا کہ شاعروں کی زمیں سے میرا خمیر آیا |
عجیب اس نے نگاہ ڈالی کہ شرم سے میں گڑا ہوا ہوں |
معلومات