دل کے ہر حصے پہ ایسی سروری تیری ہوئی |
تو ہے گویا آفتاب اور روشنی تیری ہوئی |
تو مرے چہرے کی رونق کا سبب ہے دلربا |
دل میں ہے آکر میں کہہ دوں ، ہر خوشی تیری ہوئی |
جب جلائی شمعِ محفل تجھ کو پایا روبرو |
ناگہاں جو تُو گئی تو پھر کمی تیری ہوئی |
دل ہمیشہ منہمک رہتا ہے تیری یاد میں |
میں ترا عاشق ہوا اور عاشقی تیری ہوئی |
قلب مضطر کو سکوں دے اپنی اک مسکان سے |
اک ا شارے سے بتاں دے ، زندگی تیری ہوئی |
کاغذی تحریر سے خوشبو اٹھی مہکی فضا |
میں نے بس اتنا لکھا تھا ، شاعری تیری ہوئی |
خواب کی تعبیر بن کر آئ رہؔبر کے لیے |
تو جو آئ زندگی میں ، زندگی تیری ہوئی |
معلومات