جانِ جاں اک بات تو بولو مجھ کو |
جینے کی تسلی کیوں دے رہی ہو مجھ کو |
کہہ رہی ہو کتنے روشن ہیں یہ چراغ |
وہ چراٰغ جو کبھی جلے ہی نہیں؟ |
دیکھو یہ پروانے ہیں کس قدر محوِ گردش |
وہ پروانے؟جو کبھی تھے ہی نہیں |
کتنی خاموش کتنی دلکش ہے یہ رات |
کیا وہ رات جو کبھی کٹی ہی نہیں |
دیکھو اس سیاہی کے اس پار کیا ہے |
ان درد کے جنگلوں کے اس پار |
ان وحشتوں کے بیاباں سے دور |
دہشت کے دائروں سے پرے کیا ہے |
جانِ جاں کیا وہ صبح جو کبھی آئی ہی نہیں |
جواب سو مجھ کو |
نیم سوختہ چاند سے پوچھو |
وہ خواب کیا ہوئے |
وہ خواب جن کے لیے ہم سوئے بھی نہیں |
ان رتجگوں کا کیا |
جو غیر آباد سیارئیہ آرزو پر |
کسی صبح کے انتظار میں دکھ اوڑ کے سو گئے |
کہتی ہو خاموش ہو جاؤ |
اس غم کو اس بے بسی کو ہوا میں اڑاؤ |
جو خواب دیکھے ہیں انہیں بھول جاؤ |
لے پیو ذرا ہوش میں آؤ |
نہیں غرض ہے اس لذت سے کس کو |
بولو بھی وحشت سے محبت ہے کس کو |
مجھ کو فقط مجھ کو |
کون چاہتا ہے کچھ نظر آئے |
کون چاہتا ہے پیمانہ بھر آئے |
کون چاہتا ہے ہوش کی نیند آئے |
کون چاہے خواب ٹوٹ جائیں |
الجھنے دو آج مجھ کو مجھ سے ہی |
شہریار اسی آوارگی میں کھو جائے |
جو تم چاہتے ہو وہ سب ہو جائے |
مگر مجھ کو رہنے دو خلوت کی آغوش میں |
ہاں خلوت کی آغوش میں |
معلومات