میں شاعری میں خون جگر گھولتا رہا |
ہر شعر بن کے میری زباں بولتا رہا |
۔ |
لائی سوال سامنے جتنے بھی زندگی |
ہر رمز ان کی دوست ! میں بھی کھولتا رہا |
۔ |
شعروں میں دردِ دل میں سناتا رہا اسے |
اور واہ واہ ان پہ وہ بھی بولتا رہا |
۔ |
کرتا رہا میں پیش اسے پارہ ہائے دل |
بے قدر ان کو پاؤں تلے رولتا رہا |
۔ |
میں بیچتا رہا کسی کم فہم کو سخن |
وہ کوڑیوں کے دام اسے تولتا رہا |
۔ |
اک شخص کو جو میں نے محبت میں چھوٹ دی |
"رکھ کر وہ میرے سر پہ قدم بولتا رہا |
معلومات