یقین پختہ بنے واہمہ نظر آئے
اگر کوئی خدا ہے تو خدا نظر آئے
ہزاروں خواہشیں لے کر فضول بیٹھا ہوں
میں گھر سے نکلوں مگر راستہ نظر آئے
یہ کاہے گھیر کے بیٹھے ہو رونق - دنیا
ہٹو کہ کھیل تماشا ذرا نظر آئے
میں چاہتا ہوں کسی قسم کا فریب نہ ہو
میں چاہتا ہوں نظر کو وبا نظر آئے
یہ کیا کسی پہ کرم تو کسی پہ ظلم و جبر
وہ ہر جگہ ہے تو پھر ہر جگہ نظر آئے
وہیں کتابیں وہی علم ہے وہیں رسمیں
پرانی چال میں کیسے نیا نظر آئے
ہمیشہ انگلی اٹھاتے ہیں دوسروں پہ کلیم
مجال ہے ہمیں اپنا گنہ نظر آئے

109