کس سے کہیے یہ ماجراۓ فراق |
دشتِ شوق و جنوں میں ہوۓ خاک |
ہے غضب ہجر، آنکھ ہے نمناک |
خوار کرتی ہے خواہشِ بے باک |
ہم تھے معصوم خُو کے، وہ چالاک |
اب لیے پھرتے ہیں یہ دامنِ چاک |
کیا مصیبت ہے منزلِ آفاق |
ٹھگ چکا مجھ کو عالمِ قزّاق |
عشق نے جسم سے کیا الحاق |
یعنی یہ بن کے رہ گیا ہے مذاق |
دیکھ رکھے ہیں آپ کے اخلاق |
تنگ ہیں، نسبتِ خس و خاشاک |
کج ادائی ہے آپ کی میثاق |
آپ ہیں چھل میں ماہر و مشّاق |
تنگ پوشاک اور سیمیں ساق |
ران میں تھرتھری کہ جوں بُرّاق |
اور تاریخ کا ستم تو دیکھ |
آگہی سے شکستہ ہیں عُشّاق |
شیخ جی سو جتن کریں سو کریں |
رند رہتا ہے بادہ کا مشتاق |
حسن پر ناز کیسا ہےاے! شخص |
ہے زوال اس کو جیسے وقتِ محاق |
ایک طوفانِ رنج آیا اور |
صحنِ شب میں بکھر گئے اوراق |
دور ہوں ہر بشر سے، جب سے مجھے |
ہوا ہے نفسیات کا ادراک |
غیر کو کہتے ہیں مرے بارے |
آج بھی ہے خبیث کو مری تاک |
ہے وہی طور، طرز ان کا زیبؔ |
نہیں بدلی وہ فطرتِ سفّاک |
معلومات