اس دل کو اب لہو کی ضرورت نہیں رہی
رنگین آرزو کی ضرورت نہیں رہی
ہم بے نواؤں پر ترا احسان ہے بہت
اے دوست اب عدو کی ضرورت نہیں رہی
اک داستانِ عالمِ ویراں ہے چشم و دل
دنیاے رنگ و بو کی ضرورت نہیں رہی
میرے خیال میں وہ سخنور نہیں جسے
پھولوں سے گفتگو کی ضرورت نہیں رہی
ہم سے تمام ختم ہیں رسمِ تکلفات
اب تم کی اور تُو کی ضرورت نہیں رہی
ٹکڑے کچھ اتنے پیرہنِ ذات کے ہوئے
تا زندگی رفو کی ضرورت نہیں رہی

0
135