اس دل کو اب لہو کی ضرورت نہیں رہی |
رنگین آرزو کی ضرورت نہیں رہی |
ہم بے نواؤں پر ترا احسان ہے بہت |
اے دوست اب عدو کی ضرورت نہیں رہی |
اک داستانِ عالمِ ویراں ہے چشم و دل |
دنیاے رنگ و بو کی ضرورت نہیں رہی |
میرے خیال میں وہ سخنور نہیں جسے |
پھولوں سے گفتگو کی ضرورت نہیں رہی |
ہم سے تمام ختم ہیں رسمِ تکلفات |
اب تم کی اور تُو کی ضرورت نہیں رہی |
ٹکڑے کچھ اتنے پیرہنِ ذات کے ہوئے |
تا زندگی رفو کی ضرورت نہیں رہی |
معلومات