اُس پہ ظاہر نہ ہوا دل کا ملال ، اچھا ہے |
کہہ دیا اس سے بہر حال کہ ، حال اچھا ہے |
آسماں تکتے ہوئے ایک زمانہ گزرا |
ابر برسا ہے جو اس سال تو سال اچھا ہے |
لوگ بڑھ چڑھ کے یہاں لاکھ خزانے لُوٹیں |
ہم لُٹا دیتے ہیں اُس پر کہ جو مال اچھا ہے |
جلوۂ حُسن نگاہوں کو جو خیرہ کر دے |
منزلِ عشق دِکھائے تو جمال اچھا ہے |
میکدے جائیں تو مل جائے گا ساقی خود ہی |
نشےّ سے ملتا ہو گر اس کا وصال اچھا ہے |
حشر کے روز بتائیں گے کہ کیا کر نہ سکے |
کر کے آئے ہیں وہاں جو بھی کمال اچھا ہے |
روز کہتے تھے کہ گھر آئیں گے ملنے اک دن |
پھر جو پوچھا تو کہا اتنا، سوال اچھا ہے |
وہ جو چڑھتے ہیں بلندی پہ وہی گرتے ہیں |
ہاں عروج ایسا، نہ ہو جس پہ زوال، اچھا ہے |
طارق اُس بزم میں جاتے ہو تو کچھ ایسا کرو |
اُس کو آئے جو ہمارا بھی خیال ، اچھا ہے |
معلومات