مارے پتھر جو پاک دامن ہے |
ورنہ ، انصاف محض بھاشن ہے |
ہاتھ کاٹو جو چور کے، دیکھو |
گھر میں موجود اس کے راشن ہے |
موسلا دھار برشِگالِ نور |
ابر برسا ہے جیسے ساون ہے |
وہ نہ جائے چمن اداس ہے اب |
سیر کو گھر میں اس کے آنگن ہے |
ہیں تماشائی بھی تو خطرے میں |
شیر ہاتھی میں گر چہ ان بن ہے |
نوجوانی بہار کی سی ہو |
ہر کلی پر لگے کہ جوبن ہے |
اس کے گھر کے پتے پہ چل نکلے |
اصل مقصد تو اس کا درشن ہے |
خوب گزری جو اب تلک گزری |
ہاں گزارے کو اب تو پنشن ہے |
آخری عمر کا نشاں ہے یہ |
لوٹ آیا جو پھر سے بچپن ہے |
ہر قدم پھونک کر رکھیں طارقؔ |
جانے کس وقت ختم جیون ہے |
معلومات