ہجر ہم کو نڈھال رکھتے ہیں
پھر بھی خود کو سنبھال رکھتے ہیں
پھیلے خوشبو نہ تیرے آنچل کی
اس کا بھی ہم خیال رکھتے ہیں
الفتوں کے چراغ سے شب بھر
وحشتوں کو اجال رکھتے ہیں
چلمنوں سے کبھی ستاروں کی
تجھ سے رشتہ بحال رکھتے ہیں
دل کے لکھے اداس صفحوں پر
روز تیرا سوال رکھتے ہیں
یاد تیری جو ہم کو آتی ہے
اس کو بھی کل پہ ٹال رکھتے ہیں
چند اشکوں کے درمیاں شاہد
ہم چھپا عرض حال رکھتے ہیں

0
65