شوق دل کا مٹا دیا جاۓ
اب تو اس کو بھلا دیا جاۓ
دل پہ دستک اگرچہ دے کوئی
اس کو چہرہ دکھا دیا جاۓ
ڈر گیا گر وہ تیری ہیبت سے
یہ اجالا بجھا دیا جاۓ
جب لہو سر سے لب پہ آ چپکے
اس کو شربت بتا دیا جاۓ
عشق کا لے کے خط جو آۓ اب
اس کو توبہ کرا دیا جاۓ
بات الفت کی جو کرے گل سے
اس کو مسلک بتا دیا جاۓ

0
4