لبوں کو سی کے ہر دم پیتا ہوں خونِ جگر اپنا |
در و دیوار سے اب پھوڑتا ہوں یارو سر اپنا |
کسے مجرم کہوں کس کو سزا دوں اے دلِ منصف |
جلایا ہے میں نے خود اپنے ہی ہاتھوں سے گھر اپنا |
ابھی ان کہکشاؤں سے بہت آگے گزرنا ہے |
یونہی چلتا رہے بس شب کے اے تارو سفر اپنا |
یوں دردِ دل سنانے کو فسانے ہیں بہت لیکن |
اسے فرصت کہاں رکھنا ہے قصہ مختصر اپنا |
کسی سے کیا گلہ رکھیں کسی سے کیا شکایت ہو |
جسے آنا ہو آ جائیں کھلا رہتا ہے در اپنا |
کوئی امید کیا رکھیں علاجِ دردِ الفت کی |
کہ خود بھی اس مرض میں مبتلا ہے چارہ گر اپنا |
گزرتے وقت کی دھن نے بھی دھندلائے نہیں منظر |
ہرا ہوتا رہا پل پل وہ یادوں کا شجر اپنا |
میں شیشہ ہوں سنا ہے تو بھی شیشوں کا مسیحا ہے |
لو آیا ٹوٹ کے میں اب دکھا دے تو ہنر اپنا |
معلومات