شب آنکھوں میں کٹی اور چشمِ نمدار سے میں |
گلے لگ کر روتا رہا بس دیوار سے میں |
ملتا ہے تو سجا لیتا ہے چہرے پر چہرہ |
کر بیٹھا ہوں یہ محبت کس عیار سے میں |
کرے گا ترپائی کون بے چہرہ زخموں کی |
اب کہتا ہوں اکثر یہ دلِ بیمار سے میں |
تم تو دیوانے ہو دیوانے کو معاف ہے سب |
یہاں خود ہی لڑ رہا ہوں اپنے کردار سے میں |
کُچھ لغزشوں پر بڑا رنج ہے سو چُپ ہوں ورنہ |
سب ہی کو جلا دیتا اپنی گفتار سے میں |
فیصل کوئی سمجھائے اُس کو کہ ضد نہ کرے |
مر ہی نہیں جاؤں گا اس کے اقرار سے میں |
معلومات