| گریباں چاک ہے دِل کو جلا کے بیٹھے ہیں |
| تمھارے عشق میں خود کو لُٹا کے بیٹھے ہیں |
| ستم ظریف جگہ رحم کو بھی دے جی میں |
| مُحِب تمام تِرے منہ بنا کے بیٹھے ہیں |
| دِلِ حزیں کی تمنا کھبی تو کر پوری |
| نہ جانے کب سے خرابوں میں آ کے بیٹھے ہیں |
| کلیجہ ہے یا کوئی سنگ تیرے سینے میں |
| جو التجا پہ ستم اور بڑھا کے بیٹھے ہیں |
| جمِ غفیر نہ عُشاق کا دکھا مجھ کو |
| میں جانتا ہوں یہاں کیوں یہ آ کے بیٹھے ہیں |
| کریں گے توبہ محبت سے ایک دن۔ یہ جو |
| تمھارے حُسن پہ نظریں جما کے بیٹھے ہیں |
| بروزِ حشر خدا سے کہیں گے کیا زیؔدی |
| بقا تو عشقِ بُتاں میں گنوا کے بیٹھے ہیں |
معلومات