یونہی نہیں ہے دید کا منظر ملا مجھے
جب درسِ عشق ہو گیا ازبر ، ملا مجھے
دلبر کو اپنے حسن پہ کچھ کم نہیں ہے ناز
اس کے چمن کا پھول بھی ، خود سر ، ملا مجھے
وہ ساتھ لے کے میرے رقیبوں کو آ گیا
کچھ اس طرح سے میرا ستمگر ملا مجھے
جاں لیوا زخم سارے تو اپنوں سے کھائے ہیں
پوشیدہ آستین میں خنجر ملا مجھے
میں بن بتائے بھی اُسے ملنے چلا گیا
ایسا نہیں ہوا نہ ہو گھر پر ملا مجھے
گل کو نہیں ہے تنگئ حالات کا گلہ
وہ تو چمن میں پہلے سے خوشتر ملا مجھے
ملنے گیا ہوں اس سے کبھی دیر بعد بھی
وہ تو ہمیشہ آگے ہی بڑھ کر ملا مجھے
طارقؔ سجا ہے عکس اسی کا نگاہ میں
تنہائیوں میں آکے جو اکثر ملا مجھے

0
41