ماہِ تمام وہ جو سرِ شام آگیا
ہاتھوں میں لے کے صلح کا پیغام آ گیا
عرصہ ہوا کہ ڈھونڈ رہے تھے اُسے سبھی
وہ جس کے منتظر تھے سرِ عام آ گیا
مایوس تھا جو خوش ہوا جب یہ ملی خبر
اک پہلوانِ مذہبِ اسلام آ گیا
اُترا تھا جو خدا کے پیمبر پہ نجد میں
لے کر پیام پھر وہ سرِ بام آ گیا
عیسٰی مسیح دے گئے داغِ مفارقت
ہاں یہ امام پا کے وہی نام آ گیا
مہدی کا نام بھی تو اسی کو دیا گیا
اوتار ہو کے صاحبِ الہام آ گیا
تنہا لڑا وہ دیں کے سبھی دشمنوں سے خود
سارا وجود اس کا دیں کے کام آ گیا
اسلام کا دکھا دیا اُس نے حسین رُخ
راشد خلافتوں کا بھی انعام آ گیا
طارق تُو خوش نصیب ہے ساقی ملا تُجھے
ہاتھوں میں تیرے پھر سے وہی جام آ گیا

0
35