| چلو ہم عہد کرتے ہیں تجھے حیراں نہ کر دینگے |
| تری باندھی ہوئی زنجیر کو ویراں نہ کر دینگے |
| مرے مرشد تو سنتا جا مرا ہر غم پریشانی |
| کہ عرصے بعد کی محفل ہے یوں آساں نہ کر دینگے |
| یہ پیلے زرد پتے کی ہے صورت آ گئی مجھ میں |
| مگر ایسے بھی گر کے پیڑھ کا نقصاں نہ کر دینگے |
| زباں سے کہہ دیا محبوب میں نے ہے اگر تم کو |
| اگر اب جان بھی دے دیں کوئی احساں نہ کر دینگے |
| کہ ہر شب تیرگی سے اک سبق مجھ کو ملا ایسا |
| تمہیں اب خواب میں بھی ہم کبھی ہجراں نہ کر دینگے |
| یہ دیوانہ لقب مجھ کو لہو دے کر ملا ہے اب |
| ہم ایسے نام کی قیمت کو یوں ارزاں نہ کر دینگے |
| میں بھی اس حوصلے سے چل پڑا ہوں اب تمہارے سنگ |
| ہنسی ویراں نہ کر دینگے تمہیں بے جاں نہ کر دینگے |
معلومات