یہ تمھاری راہوں کے دل جلے
نہ سمجھتے کچھ ہیں نہ سوچتے
کبھی مسکرائیں گے درد میں
کبھی راحتوں میں بھی رو لیے
یہ بڑے عجیب چراغ ہیں
نہ جلے ہوئے نہ بجھے ہوئے
انھیں ایک لمحہ سکوں نہیں
یہ ہیں مد و جزر کے سلسلے
جو تمھاری بانہوں میں آ گرے
انھیں رات دن کی خبر نہیں
انھیں موسموں کا اثر نہیں
انھیں غم ہے اپنے عزیز کا
انھیں اور کوئی بھی ڈر نہیں
انھیں موت سے نہ ڈرا کہ اب
انھیں زندگی کی فکر نہیں
انھیں زندگی کی فکر ہو کیا؟
کہ یہ اپنے یار پہ مر مٹے
جو تمھاری بانہوں میں آ گرے
جو تری نظر کا خمار ہو
نہ کوئی بھی راہِ فرار ہو
تری قربتیں جو ملیں انھیں
تو خزاں میں فصلِ بہار ہو
یہ دھڑک رہا ہے جو دل مِرا
تری زندگی پہ نثار ہو
کسی شام آ کے سمیٹ لے
ابھی زخمِِ دل ہیں ہرے ہرے
جو تمھاری بانہوں میں آ گرے
نہ طریر ہیں نہ شہیر ہیں
نہ ہی قسمتوں پہ قدیر ہیں
انھیں اور کوئی ہنر نہیں
یہ محبتوں کا خمیر ہے
یہ تمھارے قدموں کی خاک ہیں
یہ تمھارے در کے فقیر ہیں
انھیں آگے بڑھ کے گلے لگا
انھیں اپنے ہاتھ سے تھام لے
جو تمھاری بانہوں میں آ گرے

0
22