یہ کرشمہ ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
ہم کو حاصل وه مدعا نہ ہوا
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
آہ پہنچے جناب میں اس کی
تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا
وہ نمایاں تبھی تو ہوتا ہے
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
عشق میں نوک جھوک لازم ہے
جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتا
گر کسی زلف کا اسیر ہے تو
دل کسی کام کا نہیں ہوتا
کیوں *اثر* کی مراد بر آوے
صنم آخر خدا نہیں ہوتا

0
1
105
تضمین بر غزل مومن خان مومن

0