ایک مرہم بھی لا نہیں سکتے
زخمِ دل کو چھپا نہیں سکتے
تھا وہ مصروفِ زندگی اور ہم
فکر اپنی دِلا نہیں سکتے
پوچھنا وہ روا نہیں رکھتے
حالِ دل ہم بتا نہیں سکتے
کیا کرے گا بنا محبت کے
جان پھر بھی بچا نہیں سکتے
قطرہ قطرہ سہی ہیں اشک مگر
ایک دریا بنا نہیں سکتے؟
درج ہے عمر کے صحیفے پر
جا رہے ہو تو آ نہیں سکتے
نکتہ چینی بجا ہے لیکن تم
اس کو عادت بنا نہیں سکتے
دوبدو ہو کے آج یاروں سے
جان اپنی بچا نہیں سکتے

0
51