خود کلامی میں راتیں گزر جائیں گی
ہفتہ گزرے گا عمریں گزر جائیں گی
ایک خط میں لکھوں گا بنامِ خدا
پہلی سطروں میں آہیں گزر جائیں گی
اس کی یادیں نہیں آئیں گی اِس طرف
گھر کے باہر سے راہیں گزر جائیں گی
پتھروں کی طرح وہ رہے گا خموش
ساری کی ساری باتیں گزر جائیں گی
لوگ کہتے رہیں گے غزل در غزل
تیری آنکھوں پہ غزلیں گزر جائیں گی
ہم کھلونوں سے منہ موڑ لیں گے اُدھر
پھیری والے کی نیندیں گزر جائیں گی

0
59