لگ رہا ہے آسماں اب آگ برسانے کو ہے
وہ جو ہے قہّار ظالم پر غضب ڈھانے کو ہے
ایسی گرمی ہے بلا کی اب یہی محسوس ہو
اس زمیں سے جیسے بس لاوا نکل آنے کو ہے
جو خدا کے گھر کو ڈھانے کے ہیں مجرم ایک دن
ظالموں کو پیسنے کی چکّی چل جانے کو ہے
لے کے طوفاں آئے گی مظلوم کی آہِ رسا
اب مکافاتِ عمل بھی قرض لوٹانے کو ہے
گر کے اسفل سافلیں میں کام یہ ایسے کریں
اک درندہ بھی انہیں دیکھے تو شرمانے کو ہے
بہہ رہا ہے خوں مسلمانوں کا تم خاموش ہو
کیا ہوا ایماں تمہارا وقت بتلانے کو ہے
ہے خدا دھیما غضب میں پر بڑا غیّور ہے
دیکھ لینا اس کی غیرت جوش میں آنے کو ہے
مسجدوں کو تم گراؤ توڑ دو قبروں کو بھی
بد دعا کوئی اثر اپنا تو اب لانے کو ہے
یادِ ابراہیم میں قُربانیاں کرنے نہ دو
خوں شہیدوں کا مگر اب رنگ دکھلانے کو ہے
کیوں نہیں خوفِ خدا بچ جاؤ اس کے قہر سے
شامتِ اعمال اک دن سامنے آنے کو ہے
ظالموں کی ایک مدّت تک ہوئی رسّی دراز
اب انہیں انجام تک تقدیر پہنچانے کو ہے
نیست و نابود ہوں گی طاقتیں دجّال کی
اب مسیحا کا علَم دنیا میں لہرانے کو ہے
چلچلاتی دھوپ میں بس اک شجر ہے سایہ دار
سائے میں اس کے جو آئے گا اماں پانے کو ہے
ہے یہ طارق کی نصیحت فائدہ ہو گا سُنو
اس طرف آؤ شجر یہ اب ثمر لانے کو ہے

0
18