رُخ پہ گر تازگی نہیں آئی
گھر میں آسُودگی نہیں آئی
توڑ کر بھی انا کے سارے بت
دل کو بے چارگی نہیں آئی
روٹھنے والے بھی تو اپنے تھے
ان سے بیگانگی نہیں آئی
وہ جو عورت پہ ہاتھ اٹھاتے ہیں
ان کو مردانگی نہیں آئی
پیار کا نام کیوں اسے دے دیں
جب کہ وارفتگی نہیں آئی
دل لگی دل لگی رہی آخر
تم کو دل بستگی نہیں آئی
عشق کا یوں ہی ذکر کرتے ہو
تم پہ دیوانگی نہیں آئی
اس کے آنے کا اب نہیں امکاں
سن کے افسردگی نہیں آئی
سن کے گالی بھی دی دعا ہم نے
لب پہ بے ہُودگی نہیں آئی
عمر یوں ہی گزار دی تم نے
کچھ بھی بالیدگی نہیں آئی
یہ جو دنیا میں ہو گئی شہرت
ساری یک بارگی نہیں آئی
سامنے گھر کے جب ہے خُم خانہ
تم کو مے خوارگی نہیں آئی
اس کو طارِق گیا جو صحرا میں
راس فرزانگی نہیں آئی

0
7