میں جا رہا ہوں کاش تو مجھ کو پکار دے
تھوڑی تو اب انا کو تو اپنی بھی مار دے
اک لفظ پیار کا مری جھولی میں ڈال دے
اس روحِ بے قرار کو تھوڑا قرار دے
وزنی ہیں اتنے پاؤں کہ اٹھ ہی نہیں رہے
اس پل صراط سے مجھے جلدی گزار دے
اس بار بھی میں لوٹ کے آؤں گا تیرے پاس
اس سوچ کو تو دل سے اب اپنے اتار دے
یہ آخری سفر ہے تو اتنا تو رحم کر
بس مسکرا کے قرضِ وفا تو اتار دے

55