تجھ پہ اب اعتبار کون کرے
یہ خطا بار بار کون کرے
دل دکھا کر قریب آتا ہے
دور جا تجھ سے پیار کون کرے
تیرے وعدوں پہ دل سے کرکے یقیں
خود کو ہی شرمسار کون کرے
زخم دل پر لگائے ہیں جس نے
اس کو ہی غم گسار کون کرے
ڈوبتا جا رہا ہے ساحل پر
اب تجھے ہم کنار کون کرے
تیرے لہجے کی سہ کے کڑواہٹ
بات پھر تجھ سے یار کون کرے
پڑھ کے یہ داستاں تری طیب
تجھ کو عارف شمار کون کرے

0
85