خالی ہے پشت رن سے جو آیا ہے مرتجز
دل میں لئے حسین ع کا صدمہ ہے مرتجز
آنکھوں سے خوں کے آنسو بہاتا ہے مرتجز
سرور ع ہوئے شہید بتاتا ہے مرتجز
لپٹی سُموں سے بولی شہ دیں کی لاڈلی
بابا کو کس پا چھوڑ کے آیا ہے مرتجز
کہتی ہیں خاک ڈال کے سر پر یہ بیبیاں
باگوں کو تیری کس نے یہ کاٹا ہے مرتجز
گھٹنوں کو اپنے ٹیک کر جلتی زمین پر
نیزے سے سینہ چھید گیا کہتا ہے مرتجز
تیروں سے شہ کا جسم ہے سارا بھرا ہوا
دانتوں سے اپنے تیر ہٹاتا ہے مرتجز
ظالم نے گرز مارا ہے سبطِ رسول کو
سر اپنا بار بار جھکاتا ہے مرتجز
آئے ہیں شاہ زین سے جلتی زمین پر
ساحل کی سَمت نظریں اٹھتا ہے مرتجز
سبطِ نبی کا جسم ہے زخموں سے چور چور
ٹاپوں سے دشمنوں کو ہٹاتا ہے مرتجز
صائب ہے زخم کھائے یہ شبیر کا سمند
مقتل کے واقعۂ سے رلاتا ہے مرتجز۔

0
86