جدائی کی وہ کوئی شب گزارنے آئی
ہمیں دریچہ ء دل سے پکارنے آئی
وہ ہم سفر ہے کسی گلستاں میں خوشبو کی
گلاب یادوں کے سارے وہ وارنے آئی
جگر کے رستے ہوئے زخموں پر ہے کیا گزری
جنوں میں عشق کا وہ روپ دھارنے آئی
سمٹ گئی ہے وہ تصویر میری آنکھوں میں
حیات کی جو مرے بل سنوارنے آئی
نقوش ماضی کے سارے نکھار کے پل میں
وہ جیت کے مجھے پھر خود کو ہارنے آئی
نظر جو آئی ہمیں روشنی سی اک گھر میں
یہ سمجھے ہم کہ وہ چوٹیں ابھارنے آئی
کسی حسین تصور کی گود میں شاہد
یوں مجھ سے ملنے یہ تنہائی میرے گھر آئی

0
48