| جدائی کی وہ کوئی شب گزارنے آئی |
| ہمیں دریچہ ء دل سے پکارنے آئی |
| وہ ہم سفر ہے کسی گلستاں میں خوشبو کی |
| گلاب یادوں کے سارے وہ وارنے آئی |
| جگر کے رستے ہوئے زخموں پر ہے کیا گزری |
| جنوں میں عشق کا وہ روپ دھارنے آئی |
| سمٹ گئی ہے وہ تصویر میری آنکھوں میں |
| حیات کی جو مرے بل سنوارنے آئی |
| نقوش ماضی کے سارے نکھار کے پل میں |
| وہ جیت کے مجھے پھر خود کو ہارنے آئی |
| نظر جو آئی ہمیں روشنی سی اک گھر میں |
| یہ سمجھے ہم کہ وہ چوٹیں ابھارنے آئی |
| کسی حسین تصور کی گود میں شاہد |
| یوں مجھ سے ملنے یہ تنہائی میرے گھر آئی |
معلومات