ہم نے آئین کی جو پار کی حد
تم لگاؤ گے اختیار کی حد
آزمائش کو آگئے ہو پھر
تم نے دیکھی نہیں ہے پیار کی حد
جان لے لو گے اس سے آگے کیا
ہو گی کوئی تمہاری مار کی حد
نور اُترا تھا نور پر جیسے
ختم اس پر تھی انتشار کی حد
کوئی اس تک نہیں پہنچ پایا
عرش تک تھی جو میرے یار کی حد
سرخرو ہو گیا ہوں اس کے حضور
میں نے توڑی نہ اعتبار کی حد
پھول سے تو کبھی بھی خوشبو کو
روک سکتی نہیں ہے خار کی حد
طارق اب جلد وقت آئے گا
ختم ہو گی یہ انتظار کی حد

0
89