اے لوگو ہم کو دوش نہ دو کیا ہم نے عشق ایجاد کیا
ہم سیدھے سادے لوگ تھے بس اک صورت نے برباد کیا
یہ عاشق بُلبل و فاختہ ہیں خود جال کے اندر پھنستے ہیں
جب پنجرے تک بات آ جائے پھر ہم دم کو صیّاد کیا
یاں اور بھی مشغلے ہیں یارو یاں اور بھی کام ہیں کرنے کے
کیوں اس چکّر میں پڑ کے اپنے آپ کو یوں ناشاد کیا
کیوں اور کسی کی بات کریں بس غالب و میر کو ہی لے لو
یہ کتنے نستعلیق تھے پر اس عشق نے ہی برباد کیا
گو کھود لی دُودھ کی نہر مگر کچھ فائدہ تو حاصل نہ ہؤا
جب لے اُڑے ظالم شیریں کو اس پر بھی تُو نے صاد کیا
اے عاشقو میری بات سنو اور سن کے اسے ضائع نہ کرو
وہ کام نہ یارو کرنا تم جس کو تائے فرہاد کیا
اک طرف تسلسل سے قرآں اور دوسری جانب موسیقی
کیوں مجھ ایسے سیدھے سادھے کو مجموعہ اضداد کیا
سب قسمیں وعدے رشتے وفا یہ کھوکھلی باتیں ہیں خواجہ
جب مطلب نکلا بات گئی پھر کس نے کسی کو یاد کیا
بی۳

0
88