مرا درد و غم بھی وہاں تک پہنچے |
محبت کا قصہ جہاں تک پہنچے |
نہیں اب رہا اتنا بھی ہوش مجھ کو |
کہاں سے چلے تھے کہاں تک پہنچے |
مرے ہی وہ اوپر غضب بن کے ٹوٹے |
جو نالے مرے آسماں تک پہنچے |
عدو کرنے رازوں کی سودا گری کو |
مرے آج وہ رازداں تک پہنچے |
یوں آنسو کی صورت نگاؤں کے رستے |
جو تھے راز دل کے ،زباں تک پہنچے |
یہیں فیصلہ کر لو منزل کو چھوڑو |
مریض اب ہے مشکل وہاں تک پہنچے |
کیا ہے بے پردہ جو آنسو ہیں آئے |
نہ میری کوئی داستاں تک پہنچے |
جلا دو مرا آشیاں اس سے پہلے |
نحوست مری گلستاں تک پہنچے |
چلیں لوٹ خود آؤ ہم قید خانے |
کہ صیاد پیچھے یہاں تک پہنچے |
کوئی لے گواہ آؤ ورنہ ہے ممکن |
کروں قسم میں وہ قراں تک پہنچے |
مرا ناخدا بک چکا غیر کے ہاتھ |
پڑھے خط ہیں جو بادباں تک پہنچے |
بدل رت رہی پر بھی میرے کٹے ہیں |
کوئی کس طرح آشیاں تک پہنچے |
معلومات