بحرِ عطا کی یادیں سہانی، جن سے سجے، کلمات ہیں میرے
سکتہ زباں پر طاری ہے، اب اشک کہیں، حالات ہیں میرے
نسبت کام میں آتی ہے، جسے نسبت والے ہی، جان سکے ہیں
فضل خدا کے آتے ہیں، جب کرتے دعا، سادات ہیں میرے
ذکرِ نبی ہر حمد کے سنگ، اس پیار میں ہے، اک اعلیٰ سا ڈھنگ
یاد میں اُن کی گزریں سارے، جتنے رہے، دن رات ہیں میرے
ہستی خوش ہے، ظہور سے اُن کے، ساری خلق ہے، نور سے اُن کے
اُن کے کرم کی باتیں چھڑی ہیں، چشم کریں برسات ہیں میرے
نور نبی سے دہر کی جاں ہے، جس سے منور کون و مکاں ہے
یاد سے اُن کی، پھول شجر پر، پھل سے سجے، باغات ہیں میرے
اُن پہ درود، صلے علیٰ ہے، جس سے یہ قلب و فکر ضیا ہے
ہیں گجرے جو اُن پہ درودں کے، اُن کے لیے، سوغات ہیں میرے
کامل ہادی رحمتِ عالم، ساقییٔ کوثر سید اعظم
اُن کے لیے ہے جینا مرنا، اُن کے لئے، جزبات ہیں میرے
توڑے بتوں کو، بات ہے اُن کی، موڑے کفر کو، ذات ہے اُن کی
فضل و کرم ہو یا ہادی، کچھ سر پہ چڑے، خطرات ہیں میرے
حشر کی ہیبت دل میں سوا ہے، من جس سے اب، کانپ رہا ہے
آس ملی مجھے ذاتِ نبی سے، سدھرے یوں، حالات ہیں میرے
وہ جلدی دن پھر آئے گا، یہ عاصی در پر جائے گا
ہیں سائل ہم بھی بڑے فضل کے، حد سے بڑھے جزبات ہیں میرے
حرفِ سخن محمود نہ جانے، لکھنا چاہے یہ اُن کے ترانے
فضل سخی سرکار سے آئے، کہہ دے سجے کلمات ہیں میرے

38