سامنے اس کے ہر اصول گیا |
آنکھ ملتے ہی خود کو بھول گیا |
گھر سے جاتا تھا روز باہر میں |
گھرسے جانا بھی اب تو بھول گیا |
اس نے اتنا کہا کہ سندر ہو |
بس یہ سنتے ہی میں تو پھول گیا |
میں جو یہ پھول لے کے آیا تھا |
وہ ہی دینا میں اس کو بھول گیا |
اس کے ہاتھوں پہ خون تھا میرا |
اس کی بانہوں میں پھر بھی جھول گیا |
معلومات