سامنے اس کے ہر اصول گیا
آنکھ ملتے ہی خود کو بھول گیا
اس کے ہاتھوں پہ خون تھا میرا
اس کی بانہوں میں پھر بھی جھول گیا
آگہی کے اندھیرے رستے ہیں
انہیں رستوں پہ ہر رسول گیا
ان کو تعلیم نے تباہ کیا
علم لینے کو جو سکول گیا
گھر سے جاتے تھے روز باہر ہم
گھرسے جانا بھی اب تو بھول گیا
میں جو یہ پھول لے کے آیا تھا
وہی دینا میں اس کو بھول گیا

0
42