سامنے اس کے ہر اصول گیا |
آنکھ ملتے ہی خود کو بھول گیا |
اس کے ہاتھوں پہ خون تھا میرا |
اس کی بانہوں میں پھر بھی جھول گیا |
آگہی کے اندھیرے رستے ہیں |
انہیں رستوں پہ ہر رسول گیا |
ان کو تعلیم نے تباہ کیا |
علم لینے کو جو سکول گیا |
گھر سے جاتے تھے روز باہر ہم |
گھرسے جانا بھی اب تو بھول گیا |
میں جو یہ پھول لے کے آیا تھا |
وہی دینا میں اس کو بھول گیا |
معلومات